۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مولانا سید شاہد جمال رضوی

حوزہ/ امام حسین علیہ السلام کی اربعین کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ کیاجاتاہے کہ صرف امام حسین ؑکا چہلم کیوں منایاجاتا ہے اور دوسرے امام یا نبی کا چہلم کیوں نہیں منایا جاتا…؟ یہاں تک کہ خود رسول اکرم ؐ کا بھی چہلم نہیں منایا جاتا جب کہ وہ امام حسین ؑسے افضل و برتر ہیں۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن 

حوزہ نیوز ایجنسی | امام حسین علیہ السلام کی اربعین کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ کیاجاتاہے کہ صرف امام حسین ؑکا چہلم کیوں منایاجاتا ہے اور دوسرے امام یا نبی کا چہلم کیوں نہیں منایا جاتا…؟ یہاں تک کہ خود رسول اکرم ؐ کا بھی چہلم نہیں منایا جاتا جب کہ وہ امام حسین ؑسے افضل و برتر ہیں ، آخر امام حسین ؑکی شہادت میں ایسے کون سے اسرار و رموز ہیں کہ صرف انہیں کی شہادت کی یاد میں اربعین منایاجاتاہے …؟

جواب:
اس سوال اور شبہہ کے جواب کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کریں :
1۔امام حسین علیہ السلام کی فداکاری اور عظیم شہادت نے دین اسلام کو زندہ کیاہے ، دین کے احیاء میں آپ کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہے ، ان فداکاریوں کا احیاء ،در اصل دین اسلام کے احیاء کے مترادف ہے ۔اس لئے کہ آپ کی شہادت سے دین خداوندی اپنے اصل محور پر پلٹ آیا ، معاشرتی انحراف کی پچاس سالہ کوششوں پر پانی پھر گیا ، احکام الٰہیہ کے معقول گوشوں کو جذبات و عواطف کو تقویت حاصل ہوئی ۔ اس کے ذریعہ سے حقیقی اسلام کو بھرپور اور شاداب ترین ثقافت ملی ، دین اسلام اقامہ سوگواری اور تعزیہ داری کی دولت سے نہال ہوگیا ، اس میں فرد اور معاشرے کے لئے بے شمار دینی و اخروی فائدے ہیں ، اس سے دین کی تقویت ہوتی ہے اور علوم واحکام کی نشر و اشاعت ہوتی ہے ۔ان وجوہات کی بنا پر عاشورا اور اربعین کا احیاء در حقیقت دین اسلام کا احیاء ہے ، اس کے ذریعہ سے ہم دین اسلام کے دشمنوں سے عالمی پیمانے پر مقابلہ کرسکتے ہیں۔

2۔ امام حسین علیہ السلام پر جو مصائب و آلام ڈھائے گئے وہ کسی بھی نبی یا امام پر نہیں ڈھائے گئے ، آپ کی شہادت خود ائمہ معصومینؑ کے لئے بھی انتہائی دردناک اور اذیت ناک رہی ہے ، انہوں نے آپ کی شہادت کو یاد کرکے زارو قطار گریہ کیاہے اور اس غم کو ہر غم سے زیادہ اہم اور عظیم قرار دیاہے ۔اسی لئے امام حسن علیہ السلام نے آخری وقت مولا حسینؑ سے فرمایا: لا یوم کیومک یا اباعبداللہ" اے حسینؑ! تمہارے دن جیسا کوئی دن نہیں " یعنی عاشور کا غم سب سے زیادہ عظیم ہے" ۔
ظاہر ہے اگر کوئی دوسرا سبب نہ بھی تب بھی صرف یہی وجہ اس بات کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ دوسرے ائمہ طاہرینؑ بلکہ خود رسول خداؐ سے زیادہ اور متعد موقعوں پر امام حسین ؑکی عزاداری کیوں منائی جاتی ہے؛ اربعین کے موقع پر امام علیہ السلام کی عزاداری برپا کرنے کی ایک وجہ ، آپ کی عظیم اور ناقابل فراموش شہادت ہے ۔

3۔ سن 61ہجری کے محرم کے مہینے میں امام حسین ؑ، آپ کے اصحاب و انصار اور آپ کے رشتہ داروں کو شہید کردیاگیا ، شہادت کے بعد اہل حرم کو قید کرکے شام و کوفہ لے جایاگیا ، شام و کوفہ کے راستے میں اور قید خانوں میں اسرائے اہل بیت ؑپر سختی کی گئی ، بے پناہ مظالم ڈھائے گئے ، یہاں تک کہ ان کو شہدائے کربلا پر رونے نہیں دیاگیا ۔ یہ مصیبت زدہ اہل حرم اربعین ہی کے دن کربلا آئے ، جب انہوں نے میدان کربلا کو دیکھا تو ان کی نگاہوں میں ایک ایک کرکے تمام مصائب و آلام گردش کرنے لگے ، انہوں نے دل کھول کرابھی تک شہداء پر گریہ بھی نہیں کیا تھا ، اربعین کےدن ان کا غم تازہ ہوا اور انہوں نے دل کھول کر اپنے شہیدوں پر گریہ کیا ، روایت میں ہے کہ اہل حرم نےتین دنوں تک مسلسل شہدائے کربلا پر ماتم کیا ۔ اربعین کے موقع پر ہماری عزاداری اسی عزاداری کی پیروی ہے ، ہم اس عزاداری کے ذریعہ اہل حرم کو ان کے شہیدوں کا پرسہ دیتے ہیں ، ایک دکھیاری بہن کو ان کے مظلوم بھائی کا پرسہ دیتے ہیں ۔

4۔دشمنان اسلام ، امام حسین ؑکو شہید کرکے دین اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے ، یہ دشمن مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ واقعۂ کربلا پوری طرح فراموشی گھاٹ لگ جائے؛ یہاں تک کہ جو لوگ امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے تشریف لاتے تھے ان پر ظلم و ستم کیاجاتا اور قتل کردیاجاتاتھا ۔ متوکل عباسی کے زمانے میں کربلا میں موجود ساری قبروں کو مسمار کردیاگیا تھا اور وہاں پر کھیتی کردی گئی تھی ، وہ لوگوں کو قبر امام حسین ؑ کی زیارت سے منع کرتے تھے ۔ شیعہ حضرات ان مظالم اور مصائب و آلام سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر دینی اور مذہبی مناسبتوں سے استفادہ کرتے تھے تاکہ امام حسین ؑ کی زیارت سے مشرف ہوسکیں ، انہیں مناسبتوں میں سے ایک " اربعین" ہے ۔
اسی اہم نکتہ کی جانب رہبر معظم آیۃ اللہ خامنہ ای نے اشارہ فرمایاہے اور اربعین کے موقع پر جناب زینب کی موجودگی کو واقعہ عاشورا کے احیاء کا ایک ذریعہ قرار دیاہے؛ آپ فرماتے ہیں :
"ظالم و ستمگر یہ نہیں چاہتے تھے کہ واقعہ عاشورا کے اثرات باقی رہیں لیکن جناب زینب سلام اللہ علیہا نے ایسا نہیں ہونے دیا ؛ حضرت زینب نے اس سلسلے میں دو اہم ترین اقدامات کئے :ایک یہ کہ کوفہ و شام میں اپنی اسارت کے دوران بہترین خطبات کے ذریعہ حقائق کو آشکار فرمایا ۔ دوسرا اقدام یہ فرمایا کہ رہائی کے بعد اربعین کے موقع پر کربلا تشریف لائیں (یہ بحث جدا ہے کہ اسی سال آئیں یا ایک سال بعد)۔ اس اقدام کا مطلب یہ ہے کہ دشمنان اسلام جو اہم ترین اور موثر ترین مناسبتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔(17/10/93)
بعض کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ جب قید خانۂ شام سے رہائی ملی اور نعمان بن بشیر کے ہمراہ اہل حرم کا قافلہ مدینہ کی جانب روانہ ہوا تو ایک جگہ دو راہے پر پہنچا ، ایک راستہ کربلا کی طرف جاتاتھا اور دوسرا مدینہ کی طرف ۔جب نعمان نے سوال کیا کہ کون سا راستہ اختیار کیاجائے تو جناب زینبؑ سے مشورہ کے بعد امام سجاد علیہ السلام نے بشیر سے کہا کہ ہمیں کربلا لے چلو تاکہ شہداء کی قبروں کی زیارت کرکے مدینہ جائیں ۔
اس تاکید کے ذریعہ جناب زینب سلام اللہ علیہا آنے والی نسلوں کو ایک پیغام دینا چاہتی تھیں کہ واقعہ عاشورا کے احیاء کا ایک ذریعہ اربعین کی عزاداری اور اس کا پرشکوہ اجتماع ہے ۔(1)

5۔ اہل بیت علیہم السلام نے اربعین کی خصوصی اہمیت و عظمت اور اس کے معاشرتی آثار و برکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی احادیث میں شیعوں کو اربعین کے سلسلے میں تاکید فرمائی ہے ، چنانچہ امام عسکری علیہ السلام کی حدیث میں زیارت اربعین پڑھنے کو مومن کی علامت و نشانی قرار دیاگیاہے ؛ آپ فرماتے ہیں :
عَلَامَاتُ‏ الْمُؤْمِنِ‏ خَمْسٌ‏ صَلَاةُ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم‏"پانچ چیزیں مومن کی نشانی ہیں : روز و شب میں اکیاون رکعت نماز پڑھنا؛ زیارت اربعین پڑھنا ؛ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا؛ پیشانی کو مٹی پر رکھنا(خاک پر سجدہ کرنا)؛ بلند آواز سے "بسم اللہ" کہنا"۔(2)

6۔اربعین حسینی اور اس دن مخصوص زیارت کا پڑھنا ، ایک خاص واقعہ کے رونما ہونے کی جانب اشارہ کررہاہے ، اس سلسلے میں ابو ریحان بیرونی نے ایک اہم بات نقل کی ہے ، جس سے اس کی اہمیت کا کسی حد تک اندازہ ہوسکتاہے : وہ لکھتے ہیں : "وَفِی الْعِشْرینَ رُدَّ رَأْسُ الْحُسَیْنِ علیه السلام إلی جُثَّتِهِ حَتَّی دُفِنَ مَعَ جُثَّتِهِ، وَ فیهِ زِیارَةُ الْأَرْبَعینَ"20/صفر المظفر کو امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس ان کے جسم سے متصل کیاگیا اور پھر اس کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا ، اسی دن اربعین کی زیارت مروی ہے "۔(3)
اسی طرح علامہ مجلسی ؒ زاد المعاد میں لکھتے ہیں :
مشہور یہ ہے کہ اربعین کے دن امام حسین ؑکی زیارت کرنے کی تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ اس دن امام زین العابدین علیہ السلام تمام اسرائے اہل بیتؑ کے ہمراہ شام سے واپس آتے ہوئے کربلا پہونچے اور شہدائے کربلا کے سروں کو ان کے اجسام سے ملحق کیا اور انہیں دفن کیا۔(4)
بنابریں اربعین کی زیارت شہداء کے جسموں سے ان کے سروں کو ملحق کرنے کے بعد 20/ صفر کو متحقق ہوئی ، ظاہر ہے اربعین بھی دوسرے معتبر ایام کی طرح ہے ، لیکن اس میں اس قدر اہتمام کرنا اور خصوصی تاکید کرنا ، اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ اس میں کوئی خاص واقعہ رونما ہواہے جس نے اسے دوسرے قبل و بعد کے ایام سے ممتاز بنا دیاہے ؛ اور وہ سروں کے الحاق کا واقعہ ہی ہوسکتاہے جو امام سجادعلیہ السلام کے توسط سے اربعین کے موقع پر انجام دیاگیا۔

متذکرہ نکات کے تناظر میں بآسانی درک کیاجاسکتاہے کہ ائمہ طاہرین اور انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان صرف امام حسین ؑکا چہلم کیوں منایاجاتاہے ، اس اربعین سے اسلام کو تقویت ملتی ہے ، تشیع کو فروغ ملتاہے، شیعوں کا اتحاد و انسجام دنیا والوں کے سامنے آشکار ہوتاہے اورلوگ اربعین کے اجتماع کے ذریعہ مکتب اہل بیت ؑ کے استحکام کو بچشم خود ملاحظہ کرتے ہیں۔

حوالہ جات
1۔ لہوف، سید بن طاؤس ص 196
2۔وسائل الشیعہ ج14 ص 478
3۔ الآثار الباقیہ ص331
4۔ زاد المعاد ،علامہ مجلسی ؒص 402
نوٹ : اس تحریر میں شروع کے دو تین نکات کے سلسلے میں حضرت آیۃ اللہ جوادی آملی دامت برکاتہ کی ایک تقریر سے استفادہ کیاگیاہے ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .